کرامات شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم
کرامات شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی
💞صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! 💞 💞💞 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد💞
دریا کی طغیانی ختم ہو گئی
❤️❤️دریا کی طُغیانی خَتْم ہوگئی ❤️❤️
ایک مرتبہ نہرِ فُرات میں ایسی خوفناک طُغیانی آگئی (یعنی طوفان آگیا) کہ سَیلاب میں تمام کھیتیاں غَرقاب ہو (یعنی ڈوب) گئیں لوگوں نے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی بارگاہِ بیکس پناہ میں فریاد کی ۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اوررَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جُبَّۂ مبارَکہ وعِمامۂ مُقَدَّسہ و چادر مبارَکہ زیب تن فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے، حضراتِ حَسَنَینِ کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااوردیگر کئی حَضْرات بھی ہمراہ چل پڑے ۔فُرات کے کَنارے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے دو رَکْعت نَماز ادا کی، پھرپُل پر تشریف لا کراپنے عَصا سے نَہر فُرات کی طرف اشارہ کیا تو اُس کا پانی ایک گز کم ہوگیا، پھر دوسری مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہو ا جب تیسری بار اشارہ کیا تو تین گز پانی اُتر گیا اور سیلاب ختم ہوگیا۔ لوگوں نے التجا کی: یا امیرُ الْمُؤْمِنِین! بس کیجئے یِہی کافی ہے ۔ (شواہدُ النّبوۃ ص۲۱۴)
❤️شاہِ مرداں شیرِ یزداں قوّتِ پروَرْدگار❤️
❤️لا فتٰی اِلاَّ علی، لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقار❤️
💞صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد💞
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ..
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
کرامات شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
❤️❤️ ..کٹا ہوا ہا تھ جوڑد یا. ❤️❤️
ایک حبشی غلام جو کہ امیرُالْمُؤمِنِین حیدرِ کرَّار، صاحِبِ ذُوالْفِقار ، حَسنَینِ کریمَین کے والدِ بُزُرگوار ، حضرت مولا مُشکلکشا علیُّ المُرتَضٰیشیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے بَہُت مَحَبَّت کرتا تھا ، شامتِ اعمال سے اُس نے ایک مرتبہ چوری کرلی۔ لوگوں نے اُس کو پکڑ کر دربارِخِلافت میں پیش کردیا اورغلام نے اپنے جُرم کا اِقرار بھی کر لیا ۔ امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حُکمِ شَرْعی نافِذ کرتے ہوئے اُس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سَلمان فارسیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اوراِبنُ الکَوّاءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ملاقات ہوگئی۔ ابن الکَوّاءنے پوچھا: تمہارا ہاتھ کس نے کاٹا ؟ تو غلام نے کہا : ’’ امیرُ الْمُؤمِنِین و یَعسُوبُ المسلمین وزَوجِ بتول (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے ۔ ‘‘ ابن الکَوّاءنے حیرت سے کہا : ’’ انہوں نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالاپھر بھی تم اِس قَدَراِعزازواِکرام کے ساتھ اُنکا نام لیتے ہو! ‘‘ غلام نے کہا: ’’ میں ان کی تعریف کیوں نہ کروں ! انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے عذابِ جہنَّم سے بچالیا۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُناسلمان فارسیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دونوں کی گفتگو سنی اور حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے اِس کا تَذکِرہ کیا تو آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اُس غلام کوبُلوا یا اوراُس کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی پر رکھ کر رومال سے چُھپا دیاپھر کچھ پڑھنا شُروع کردیا، اِتنے میں ایک غیبی آواز آئی : ’’ کپڑا ہٹاؤ۔ ‘‘ جب لوگوں نے کپڑا ہٹا یا تو غلام کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی سے اِس طرح جُڑ گیا تھا کہ کہیں کٹنے کا نشان تک نہیں تھا! (تفسیر کبیرج۷ص۴۳۴)
Comments
Post a Comment