حضور صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہے❤️
حضرت عبد الرحمن بن ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے کافر ذمی شخص کا جنازہ ہے۔ دونوں نے بیان فرمایا: (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ (انسانی) جان نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 / 441، الرقم: 1250، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 / 661، الرقم: 961، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب القيام لجنازة أهل الشرک، 4 / 45، الرقم: 1921، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 626، الرقم: 2048، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 6، الرقم: 23893، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 90، الرقم: 5606، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 39، الرقم: 11918، وابن الجعد في المسند / 27، الرقم: 70، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 27، الرقم: 6672.
,😍😍❤️❤️😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس میت کے احترام میں) کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو (کسی) یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔‘‘حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا، اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر شراب نوشی کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اُسے کوڑے مارے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا: اے اللہ! اِس پر لعنت فرما یہ کتنی دفعہ (اِس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اِس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق، بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وأنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم: 6398، وأبو يعلی في المسند،1 / 1
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 / 441، الرقم: 1249، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 / 660، الرقم: 960، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب القيام لجنازة أهل الشرک، 4 / 45، الرقم: 1922، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 626، الرقم: 2049، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 319، الرقم: 14467.
😍😍😍😍❤️❤️😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ:
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِيْ مَجْلِسٍ فَتَفَرَّقُوْا مِنْ غَيْرِ ذِکْرِاللهِ وَالصَّلَاةِ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھے بغیر وہ منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لئے قیامت کے روز باعث حسرت (و باعثِ خسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہیں ہو گی۔
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 351، الرقم : 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم : 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم : 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79 وقال الهيثمي : رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں سے کرنا چاہئے: ایک وہ شخص جسے اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا ہوا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راہِ الٰہی میں) خرچ کرتا رہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل القرآن، باب : اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القرآنِ، 4 / 1919، الرقم : 4737، وفي کتاب : التمني، باب : تَمَنِّي القُرآنِ وَالعِلْمِ، 6 / 2643، الرقم : 6805، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه، وفضل من تعلم حکمة من فقه أوغيره فعمل بها وعلمها، 1 / 558. 559، الرقم : 815، والترمذي في السنن، کتاب : البر والصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في الحسد، 4 / 330، الرقم : 1936، وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : الحسد، 2 / 408، الرقم : 4209، وابن حبان في الصحيح، في الصحيح، 1 / 332، الرقم : 125، 126، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 27، الرقم : 8072، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 8، الرقم : 4550، 4924، 5618، 6403، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 375، الرقم : 2271.2688، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 153، الرقم : 30281. 30282، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 188، الرقم : 7615. 7616، وأبويعلي في المسند، 9 / 291، الرقم : 5417
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا، اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر شراب نوشی کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اُسے کوڑے مارے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا: اے اللہ! اِس پر لعنت فرما یہ کتنی دفعہ (اِس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اِس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق، بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وأنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم: 6398، وأبو يعلی في المسند،1 / 1
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (تمام جہانوں کے لئے رحمت) بنا کر بھیجا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت) اور ’’هُدًی لِلْعَالَمِيْنَ ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے ہدایت) بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’هُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ‘‘ مجھے تمام پرہیز گاروں (یعنی انبیائ، اولیاء اور صالحین) کے لئے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أبو داود في السنن،کتاب السنة، باب النهي عن سبّ أصحاب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 /215، الرقم: 4659، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /437، 268، الرقم: 23757، 22361، والطبراني في المعجم الکبير، 8 /196، الرقم: 7803، وأبو نعيم في دلائل النبوة،1 /4،
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک میں رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رحمت) ہوں۔‘‘
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بددعا کیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، میں تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے عذاب بنا کر نہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، 4 /2006، الرقم: 2599، والبخاري في الأدب المفرد /119، الرقم: 321، وأبو يعلی في المسند،11 /35، الرقم: 6174، وأبو نعيم في دلائل النبوة،1 /40، الرقم: 2، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /144،
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں نمازِ فجر (باجماعت ادا کرنے) سے رہ جاتا ہوں کیونکہ فلاں صاحب ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ (یہ بات سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس روز سے زیادہ ناراض ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! (کیا) تم میں نفرت دلانے والے بھی ہیں؟ تم میں سے جو بھی لوگوں کی امامت کرے تو اُسے چاہیے کہ مختصر نماز پڑھائے کیونکہ اُس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
Comments
Post a Comment