حدیث نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم
. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِإِنَائٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَائِ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الإِنَائِ، فَجَعَلَ الْمَائُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ. قَالَ قَتَادَةُ : قُلْتُ لِأَنَسٍ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُهَائَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ.
وفي رواية : لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا : تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1309. 1310، الرقم : 3379. 3380، 5316، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فی معجزات النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم : 2279، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (6)، 5 / 596، الرقم : 3631، ومالک فی الموطأ، 1 / 32، الرقم : 62، والشافعی فی المسند، 1 / 15، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 132، الرقم : 12370، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 / 193، الرقم : 878، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 316، الرقم : 31724.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ:
يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَيْلَةٍ إِلٰی السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ فَيَقُوْلُ: مَنْ يَدْعُونِيْ فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ، وَمَنْ يَسْأَلُنِيْ فَأُعْطِيَهُ، وَمَنْ يَسْتَغْفِرُنِيْ فَأَغْفِرَ لَهُ.
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے : ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں، ہے کوئی جو مجھ سے معافی چاہے کہ اسے بخش دوں۔
أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب : التهجد، باب : الدُّعاءِ وَ الصَّلَاةِ مِن آخِرِ اللَّيْلِ، 1 / 384، الرقم : 1094، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدُّعاءُ نصفَ اللَّيْلِ، 5 / 2330، الرقم : 5962، وفي کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالىٰ : يريدونَ أَن يُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللهِ (الفتح : [15، 6 / 2723، الرقم : 7056، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : الترغيب في الدعاء والذکر في آخر الليل والإجابة فيه، 1 / 521، الرقم : 705، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : ما جاء في نُزُولِِ الرَّبِّ عزوجل إلى السَّماءِ الدُّنْيا کُلَّ لَيْلَة، 2 / 307، الرقم : 446، وقال أَبُوْعِيْسَي : وهَذَا أَصحُّ الرِّوَايَاتِ. وفي کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (79)، 5 / 526، الرقم : 3498، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 420، الرقم : 7768، 10313، 10314، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في أي ساعات اللّيل أفضل، 1 / 435، الرقم : 1366، ومالک في الموطأ، 1 / 214، الرقم : 498
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ ؓ قَالَ: وَکَانَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلَامِهِ ﷺ أَنْ قَالَ:
أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
حضرت عبد اﷲ بن سلامؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا سب سے پہلا کلام جو میں نے سنا یہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! سلام پھیلاؤ (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو) کھانا کھلایا کرو، خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کیا کرو اور راتوں کو (اٹھ کر) نماز پڑھا کرو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (42)، 4 / 652، الرقم : 2485، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في قيام الليل، 1 / 423، الرقم : 1334، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 451، الرقم : 23835
❤️🧡💛💚💙💙💜🤎🤎💙💚💛🧡❤️💚💙💜🤎💜💙💚🧡❤️💛💙🤎🤎💙💚🧡
One Day Sayyiduna Rasul'Allah (Sallallahu Ta'ala Alayhi Wa'Aalihi Wasallam) Saw A Bee And Asked It How Honey Is Made. The Bee Replied That They Fly Out To Gardens And Collect Pollen And Nectar From The Flowers In Their Mouths, And Then Fly Back To The Hive And Release it, And That Makes Honey.
Sayyiduna Rasul'Allah (Sallallahu Ta'ala Alayhi Wa'Aalihi Wasallam) Then Said To The Bee:
"But The Nectars Have Different Tastes, Some Are Bitter And Others Can Be Sour. But How Do These Become Sweet?
The Bee Replied:
"Allah (Subhanahu Wa' Ta'ala) Has Taught Us To Recite Salawaat Upon You After We Collect The Nectar, Until We Reach Our Hive. The Sweetness Of The Honey Is The Blessing Of The Salawaat We Recite Upon You That Turns Something So Bitter Into Such Sweetness".
~Hazrat Rumi R.A
Comments
Post a Comment