Ibtida or Inteha ka Asool ‎// ‎ابتدا اور انتہا کا اصول ‏



ابتدا اور انتہا کا اصول | Ibtida or Inteha ka Asool
  
ابتدا اور انتہا کا اصول 
انسان کی ابتدا ’’نورِ محمدی‘‘ ہے اور اس نورِ محمدی کی جانب سفر کرنا ہماری ’’انتہا‘‘ ہے۔



انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ غور طلب سوال یہ ہے کہ انسان کی ابتدا کیا ہے؟ انسان کی ابتدا وہی نقطہ ہے جس لمحے ربّ تعالیٰ نے اسے تخلیق کرنے کا ’’ارادہ‘‘ فرمایا تھا۔ اگر انسان کی ابتدا کی بات کی جائے تو اس کے متعلق حدیثِ قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔
کسی بھی چیز کا آغاز یا نقطۂ ابتدا ارادے سے ہوتا ہے اور اس حدیثِ قدسی سے یہ نکتہ کھلتا ہے کہ مخلوقات کی تخلیق کا مقصد ’’اللہ تعالیٰ کی پہچان‘‘ ہے۔ جب نیت یا ارادے کو کسی مقصد کے حصول کے لیے عملی جامہ پہنایا جائے تو یہ’’ فلسفۂ ابتدا‘‘ کا دوسرا مرحلہ کہلائے گا۔ 

اس کے بعد دوسراسوال جو ذہن کو الجھاتا ہے وہ یہ ہے ’’انتہا سے کیا مراد ہے‘‘؟ اس کا جواب حدیث شریف میں یوں موجود ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ 
ترجمہ: انتہا ابتدا کی جانب لوٹ جانا ہے۔
 یعنی انسان اپنی ابتدا سے سفر شروع کرکے زندگی کے اتار چڑھاؤ، تکالیف اور آزمائشوں سے گزرتا ہوا جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو درحقیقت وہ اپنی ابتدا کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جب ایک دفعہ اپنی ابتدا سے سفر شروع کر کے انتہا اور پھر ابتدا کو پہنچ جائے تو اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اگر خود پر جمود طاری کر لیا تو کیا یہ درست ہو گا؟ یا یہ ابتدا اور انتہا کی گردش کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ ان تمام سوالات کا جواب اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب سب سے پہلے اپنی ابتدا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

تنزلاتِ ستّہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے ظہور یا پہچان کا ارادہ فرمایا تو تعینات یا مراتب میں نزول فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات مالکِ کل اور خالقِ کائنات ہے وہ چاہتا تو ’کُن‘ فرما کر ایک ہی لمحے میں کائنات کو تخلیق کر دیتا لیکن انسان کو اپنی حقیقت اور نزولِ ذات کے مراتب کی حقیقت سمجھانے کے لیے درجہ بدرجہ مراتب اور عالموں میں نزول فرمایا۔ تنزلاتِ ستّہ سے مراد ذاتِ حق تعالیٰ کے نزول کے وہ چھ مراتب ہیں جنہیں طے کر کے ذاتِ حق تعالیٰ اس کائنات خصوصاً ’’انسان‘‘ میں جلوہ گر ہوئی۔ یہ چھ مراتب احدیت، وحدت، واحدیت، جبروت، ملکوت، ناسوت ہیں اور ان تمام مراتب کا جامع مرتبۂ انسان ہے۔ یہ تمام مراتب کائنات کی تخلیق کے ارتقا کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر بھی موجود ہیں۔ اسی مناسبت سے انسان کو عالم ِکبیر بھی کہا جاتا ہے۔
شاہ سیدّ محمد ذوقیؒ فرماتے ہیں:
اس بنا پر عالم کو انسانِ کبیر اور انسان کو عالمِ صغیر کہتے ہیں کہ حقیقتِ انسانی کا تفصیلی ظہور عالم ہے اور عالم کا اجمالی ظہور انسان میں ہے۔ یا انسان کی تفصیلی صورت عالم ہے اور عالم کی اجمالی صورت انسان ہے۔ جو کچھ عالم میں ہے سب اجمالی طور پرانسان میں ہے اور جو کچھ انسان میں ہے سب تفصیلی طور پرعالم میں ہے۔ (سرِّ دلبراں)

اولیا کرام تنزلاتِ ستہ کو یوں بیان فرماتے ہیں :

عالم ِھاھویت (احدیت) :
یہ مرتبہ ’’لاتعین‘‘ ہے جو حد ِادراک سے باہر ہے جسے کسی مثال کے ذریعہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس مرتبہ پر نہ اللہ کی ذات کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے نہ صفات کی ۔یہ وہ عالم ہے جہاں تک کسی عقل، علم اور فکر کی رسائی نہیں محض سمجھانے کی غرض سے یہاں ذاتِ حق کو ’’ھوُ‘‘ کہتے ہیں۔

عالم یاھوُت (وحدت):   
 جب اللہ تعالیٰ نے اپنا اظہار چاہا تو خود کو نورِ محمدی کی صورت میں ظاہر کیا۔ اس عالم کو ’’عالمِ یاھوت، مرتبۂ وحدت، تعینِ اوّل یا ظہورِ اوّل بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی کو تخلیق نہیں کیا بلکہ وہ ذات جو غیب الغیب تھی، جب ظاہر ہوئی تو نورِ محمدی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ چنانچہ نورِ محمدی غیر مخلوق ہے اور نورِ الٰہی کا پرتَو، آئینہ یا اسکی ’’صورت‘‘ ہے۔ یہ مرتبہ حقیقتِ محمدیہ بھی کہلاتا ہے۔ مندرجہ ذیل حدیثِ مبارکہ میں حقیقتِ محمدیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔ 

عالمِ لاھوت (واحدیت):
یہ مرتبہ سوم اور تعینِ دوم ہے۔ یہ وہ مرتبہ ہے جہاں تمام عالم نورِ محمدی میں چھپا ہوا موجود تھا اور اظہار کے لیے بے قرار تھا۔ اس مرتبے کو حقیقتِ انسانیہ بھی کہتے ہیں۔ یہی مرتبہ انسان کی اصل حقیقت ہے۔ جو بندہ اپنی اس حقیقت کے راز کو پا لیتا ہے وہ اللہ کی معرفت کے راز کو پا لیتا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا‘‘۔ اور جان لینا چاہیے کہ یہ رازیا نور ہر انسان میں پوشیدہ ہوتا ہے لیکن انسان میں اس کا اظہار ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات سے ہی ممکن ہے۔ عالمِ لاھوت میں نورِ محمدی کا لباس روحِ قدسی ہے۔ نورِ محمدی ہی دراصل روحِ قدسی ہے۔ ہر شے کی ابتدا اور تمام ارواح کا مادہ و مبدا روحِ قدسی ہے۔ 

عالمِ ارواح (جبروت) :
مرتبہ چہارم اور تعینِ سوم ہے۔ یہ ارواحِ انسانی کی تخلیق کا عالم ہے جہاں روحِ قدسی سے تمام ارواح کو پیدا کیا گیا۔ اس عالم کو عالم ِ جبروت یا عالمِ ارواح بھی کہتے ہیں۔ اس مرتبے پر فرشتوں کو بھی پیدا کیا گیا۔ نورِ محمدی جسے عالمِ لاھوت میں روحِ قدسی کا لباس پہنایا گیا تھا اسے عالمِ جبروت میں روحِ سلطانی کی صورت میں ظاہر کیا گیا۔

عالمِ مثال (ملکوت): 
مرتبہ پنجم اور تعین چہارم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر روحِ سلطانی نے خود کو روحِ نورانی میں مخفی کیا اور مثالی صورتوں میں ظاہر ہوئی۔ حیوانات، نباتات اور جمادات کی ارواح کو یہاں عالمِ ملکوت میں تخلیق کیا گیا۔ اس عالم کی مثال خواب میں نظر آنے والی صورتیں یا دماغ میں بننے والی خیالی صورتیں ہیں جو کہ دیکھی جا سکتی ہیں لیکن پکڑی نہیں جا سکتیں۔ 

عالمِ اجسام (ناسوت):
مرتبہ ششم اور تعین پنجم ہے۔ یہاں مثالی صورتوں کو اجسام کی صورت میں ظاہر کیا گیا۔ روحِ نورانی کو روحِ جسمانی کا لبادہ اوڑھایا گیا۔ 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
ذاتِ حق تعالیٰ نے کثرت میں جلوہ گر ہونے کے لیے مرتبہ بہ مرتبہ ظہور فرمایا، ان مراتب کو اولیا کرام نزول کہتے ہیں۔ ان تمام مراتب کا جامع مرتبہ ’’مرتبہ انسان ‘‘ہے دیگر مخلوقات کی نسبت جس وجود میں اللہ کا اظہار مکمل ہے وہ انسان کا بشری وجود ہے لیکن وہ انسان جس میں یہ ظہور کامل مکمل اُتم ہوا وہ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات پاک ہے اور ان تمام مراتب کے مظہر ِاتم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ (شمس الفقرا)
ان مراتب یا تعینات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی ابتدا ’’نورِ محمدی‘‘ ہے اور اس نورِ محمدی کی جانب سفر کرنا ہماری ’’انتہا‘‘ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے ’’انتہا ابتدا کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے‘‘۔ ظہورِ حق کی ابتدا چونکہ ’’نورِ محمدی‘‘ (مقامِ وحدت) کے ظہور سے ہوئی اور تمام مخلوق نورِ محمدی سے ظہور پذیر ہوئی اس لیے ابتدا ’’نورِ محمدی‘‘ ہے۔ لہٰذا ’’ابتدا‘‘ نورِ محمدی تک پہنچنا ہی ’’انتہا‘‘ ہوا۔ (کلید التوحید کلاں)

’’انتہا اپنی ابتدا کی جانب لوٹ جانا ہے‘‘ اس حدیثِ مبارکہ میں ’’کی طرف جانا‘‘ ایک سفر کی جانب نشاندہی کرتا ہے اور وہ سفر یہی ہے کہ باطن میں ناسوت، ملکوت، جبروت، لاھوت کے مقامات سے گزر کر ہم اپنی حقیقی منزل ’’نورِ محمدی‘‘ سے مل جائیں۔ مرتبۂ ناسوت یا وہ مرتبہ جہاں روحِ نورانی پر روحِ جسمانی کالباس اوڑھایا گیا یہ اسفل سافلین کا درجہ ہے۔ انسان کی اصل انتہا یہی ہے کہ وہ اسفل سافلین سے عروج حاصل کر کے اپنی ابتدا نورِ محمدی سے مل جائے جو کہ احسن تقویم کا مرتبہ ہے۔ 
 سورۃ التین میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْم (سورۃ التین۔4)
ترجمہ: یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔ 
ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (سورۃ التین۔5)
ترجمہ: پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا۔
 ہم سب میں نورِ محمدی موجود ہے اور یہی نور اپنی ابتدا سے مل جانا چاہتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا میں اصل کشش یا کششِ ثقل (gravitational force) ’’نورِ محمدی‘‘ ہے۔ نورِ محمدی کا ہر شے میں موجود ہونا حرکت کا سبب ہے اور ہماری روح نورِ محمدی سے پیدا کی گئی ہے اور وہ اپنے اصل سے اس طرح ملنا چاہتی ہے جیسے ایک مقناطیس کا چھوٹا ٹکڑا بڑے مقناطیس سے جڑ جانا چاہتا ہے۔ یعنی انتہا اپنی ابتدا سے مل جانے کے لیے کشش رکھتی ہے اور اسی کا نام ’’زندگی‘‘ ہے۔ 

وہ ذات جس میں ابتدا و انتہا کے تمام مراتب باہم یکجا ہیں وہ وجود انسانِ کامل کا ہے۔ اس کی ابتدا و انتہا ایک ہے۔ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام ہی ابتدا میں اظہار کی پہلی صورت ہیں اور انتہا ئی مرتبہ (مرتبۂ انسانِ کامل) پر اللہ کے مکمل اور اُتم ظہور کی صورت ہیں۔ اسی حوالے سے آپؐ ابتدا بھی ہیں اور انتہا بھی۔ اوّل بھی آپؐ ہیں اور آخربھی آپؐ۔ انسانِ کامل میں ابتدا و انتہا کا ملاپ اسی طرح ہے جس طرح ایک نقطہ جس سے دائرہ بنایا جائے تو وہ نقطہ ابتدا بھی ہوا اور جب اس نے دائرہ مکمل کر لیا تو وہ انتہا بھی ہوا۔ تنزلاتِ ستہ یا نزول کا سفر نورانیت سے بشریت کا سفر ہے اور اس سفر میں بشریت اور ھویت کی کاملیت کی انتہا ’’مرتبہ انسانِ کامل‘‘ ہے۔’’ مرآۃ العارفین‘‘ میں اس موضوع کی بہترین شرح ا ن الفاظ میں کی گئی ہے:
’’انسانِ کامل‘‘ کا نور تخلیق کا آغاز بھی اور اس کی بشریت تخلیق کی انتہا بھی ہے۔ وہی اوّل ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن۔ جو بات نور سے شروع ہوئی وہ بشر پر ختم ہوئی، ’ھو‘ سے شروع ہوئی ’عبد‘ پر تکمیل پائی اور اس سفر کا نتیجہ، لبِ لباب ’عبدہ‘ ہے۔ یعنی وہ نقطہ جس پر تمام عالم کا نور، عقل، سمع، بصر، حیات حتیٰ کہ ہر تخلیق کردہ شے سمٹ آئی۔‘‘ (مرآۃ العارفین)
نزولِ ذات کے مراتب کے ’’دو‘‘ حصے ہیں۔ نزول کا سفر نورِ حق تعالیٰ کے پھیلاؤ کا سفر ہے۔ پہلے حصہ میں تمام نور نورِ الٰہی سے منتشر (diverge) ہوا اور تمام عالم میں پھیلا اور دوسرے حصہ میں تمام نور اکٹھا (converge) ہو کر انسانِ کامل کی بشری صورت میں سمٹ گیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک تمہارا ربّ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ مدتوں (یعنی چھ ادوار) میں بنایا پھر عرش پر استوا فرمایا۔ (سورۃ الاعراف54)
اس آیتِ مبارکہ میں چھ ادوار سے مراد تنزلاتِ ستہ ہیں، آسمانوں سے مراد ھاھویت، یاھوت، لاھوت ہیں، زمینوں سے مراد جبروت، ملکوت، ناسوت ہیں اور عرش سے مراد انسانِ کامل کا قلب ہے جو تمام مراتب کا جامع ہے۔تمام نور اس نقطہ پر آکر جمع (converge) ہو گیا۔
اب تک کی بحث کا لب ِلباب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنے اظہار کے لیے پیدا فرمایا اور اس مقصد کے لیے چھ مراتب میں نزول فرمایا۔ ابتدا نور (ھو) سے ہوئی اور پھر درجہ بدرجہ یہ نور تمام عالموں میں پھیلا۔ اس نور کا مکمل اظہار ( دیگر مخلوقات کی نسبت) ’’عبد‘‘ میں ہوا لیکن وہ انسان جس میں ظہور کامل اور اُتم ہوا یا جو ھویت اور بشریت کی کاملیت کی انتہا ہے وہ ذات’ عبدہٗ یعنی انسانِ کامل کی ہے۔ اس حوالے سے جب بندے کی ابتدا کے متعلق پوچھا جائے تو بندے کی ابتدا ’’نورِ محمد‘‘ ہے اور اس کی اصل انتہا مرتبہ اسفل سافلین سے ترقی حاصل کر کے اپنی ابتدا سے مل جانا ہے۔ یہی اصل انتہا یا عروج کہلاتا ہے۔

اب اگلے سوال کی جانب بڑھتے ہیں ’’کیا یہ ابتدا سے انتہا کا سفر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے؟اس سوال کا جواب ہے کہ یہ سفر ’’دائمی‘‘ ہے کبھی نہ ختم ہونے والا۔ یہی راہِ معرفت کی اصل حقیقت اور راز ہے۔ یہی ابتدا و انتہا کا حقیقی اصول ہے۔ جب بندہ عالمِ اجسام سے اللہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور توحیدِ ذاتِ حق تک پہنچ جاتا ہے تو یہ سیر ’’سیر الی اللہ‘‘ کہلاتی ہے۔ یعنی طالبِ مولیٰ کو عرفانِ ذات نصیب ہو جاتا ہے۔ سیر الی اللہ (اللہ تک سیر) کا سفر یہاں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا دائمی سفر سیر فی اللہ (اللہ میں سفر) کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سفر غیر متناہی ہے کبھی نہ ختم ہونے والا۔ جس کی کوئی حد نہیں۔ کیونکہ ذاتِ حق لامحدود ہے اس لیے اس کی سیر بھی لامحدود ہوئی۔

ابتدا و انتہا کا سفر کس طرح طے کیا جا سکتا ہے؟
اس کے متعلق حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کا فرمانِ عالیشان ہے: 
  جو طور طریق ناسوت اور ملکوت کے درمیان ہے وہ شریعت ہے، جو طور طریق ملکوت اور جبروت کے درمیان ہے وہ طریقت ہے اور جو طور طریق جبروت اور لاھوت کے درمیان ہے وہ حقیقت ہے۔ (الرسالۃ الغوثیہ)

یعنی ہم اپنی منزل تک صرف اسی طرح رسائی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم شریعت، طریقت اور حقیقت کی راہ کے تمام تقاضوں کو بخوبی سر انجام دے دیں۔ کوئی بھی سفر بغیر راہبری کے طے نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح اپنی حقیقی منزل تک رجوع کرنے کا سفر مرشد کامل کی راہبری کے بغیر ممکن نہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل کی ابتدا اور انتہا ایک ہوتی ہے۔ وہ صراط المستقیم پر ہوتا ہے اور اسے حضوری، نورِ الٰہی کی تجلیات کا مشاہدہ، قربِ الٰہی، توحید کی معرفت اور سلک سلوک تصور کے تمام مراتب اور ان پر تصرف حاصل ہوتا ہے۔ (قربِ دیدار)

مرشد کامل ہر راہ کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے اور وہی سالک کو ہر عالم (ناسوت ، ملکوت، جبروت ، لاھوت) کے طور طریقے سکھاتا ہے، وہاں کی عبادت سے واقف کرواتا ہے اور ترقی سے ہمکنار کر کے اگلے عالم تک لے جاتا ہے جیسا کہ ظاہری دنیا میں بھی اصول ہے ہر سو (100) کلومیٹر یا اس کے لگ بھگ فاصلہ کے بعد علاقوں کی آب و ہوا، رہن سہن وہاں کے لوگوں کا لباس اور زبان وغیرہ تبدیل ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح باطنی عالموں میں بھی ہر عالم کے اپنے لباس، اصول و ضوابط، نام اور طور طریق ہیں۔


حاصل کلام (conclusion):
انتہا سے ابتدا کا سفر نہ صرف انسانوں کے لیے مخصوص ہے بلکہ اگر اس اصول کو قدرتی عمل کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ اگر ایک پھل کی مثال دی جائے تو اس کی ابتدا ایک بیج سے ہوتی ہے اور جب وہ پھل مکمل تیار ہو جاتا ہے یعنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو دوبارہ ایک بیج جو کہ پھل کی ابتدائی شکل ہے اس کواختیا ر کر لیتا ہے۔ در حقیقت ابتدا اور انتہا دونوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوتا ہے بالکل انسان کی طرح۔ 

      اس عمل کی سب سے بڑی مثال انسان کا جسم ہے ۔ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے مرنے کے بعد اسے دوبارہ خاک میں ملا دیا جائے گا۔  

 یہ کائنات جو مسلسل حرکت میں ہے اس بات کی نشانی ہے کہ وہ ایک منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وہ منزل اس کی اپنی ابتدا کی جانب پہنچنا ہے۔ کائنات کا آغاز ایک دھماکے سے ہوا اور اس کا اختتام بھی ایسے ہی طرز والے تباہی نما دھماکے سے ہو گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اس دن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کا غذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اسکے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اعادہ) ضرور کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الانبیا ۔104)

ایک اور جگہ ارشاد ہوا۔
 وہ آسمان سے زمین تک کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ (سورۃ السجدہ۔ 5)
پہلی آیت ’’جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم اس عملِ تخلیق کو دہرائیں گے‘‘ اور دوسری آیت ’’اسی کی طرف لوٹ جائے گی ‘‘ میں انتہا ‘ابتدا کی جانب رواں دواں ہے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
روح کی حقیقت کے متعلق بات کی جائے تو یہ بھی انتہا سے ابتدا کی جانب سفر کرنے کے مفہوم کی مکمل وضاحت ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
ترجمہ: بیشک ہم اللہ کے ہیں اور ہم یقینااس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو ہماری حقیقی منزل کی جانب رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

استفادہ کتب :
مرآۃ العارفین تصنیف سیدّ الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ
الرسالۃ الغوثیہ تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
رسالہ روحی شریف تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
کلید التوحید کلاں ایضاً
قربِ دیدار ایضاً
شمس العارفین ایضاً
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
اسلام اور جدید سائنس مصنف : ڈاکٹر محمد طاہر القادری

 
 

Comments

Popular posts from this blog

سبق ‏آموز ‏واقعات، ‏دلچسپ ‏اور ‏معنی ‏خیز ‏سو ‏100سے ‏زیادہ ‏سبق ‏آموز ‏کہانیان

islamic quotes ❤️

Alvida Mahee Ramzan naat lyrics..Qalb-e-Aashiq Hain Ab Para Para,Alwada Alwada Mahe Ramazan